’پھر آخر میں، میں نے سوچا کہ شاید موت ہی میرے لیے بہتر ہوگی۔‘
یہ الفاظ لوسیانا گلیٹا کے ہیں، جنھوں نے ایک ڈوبتی کشتی میں 35 گھنٹے گزارے۔ یہ وہ لمحات تھے جب تاریکی، خوف اور سمندر کی بے رحم لہریں ان کے چاروں طرف تھیں۔ اس حادثے میں وہ ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک تھیں جو زندہ بچ گئیں۔
یہ حادثہ گزشتہ سال 25 نومبر کو بحیرہ احمر میں پیش آیا، جب غوطہ خوروں کی ایک کشتی سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب گئی۔ اس واقعے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے یا تاحال لاپتہ ہیں۔ ان میں کئی غیر ملکی سیاح شامل تھے۔
کشتی کا سفر اور حادثہ
غوطہ خوروں کی لگژری کشتی 24 نومبر کو مصری ساحل مرسی علم (پورٹ غالب) سے بحیرہ احمر میں روانہ ہوئی۔ اس کشتی پر 31 غیر ملکی مہمان، تین تجربہ کار غوطہ خور، تین ڈائیو گائیڈز، اور 12 افراد پر مشتمل مصری عملہ سوار تھا۔ یہ ایک چھ روزہ سفر تھا جس کا مقصد غوطہ خوروں کے مشہور مقام ستایا ریف کی جانب جانا تھا۔
لوسیانا گلیٹا، جو بیلجیئم سے آئی تھیں، نے ابتدا میں کشتی کے بارے میں مثبت تاثر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ کشتی کافی بڑی اور صاف ستھری تھی۔‘ لیکن یہ سفر ان کے لیے اور دیگر مسافروں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گیا۔
حادثے کے آثار
ڈوبنے سے چند گھنٹے قبل، کشتی کی حالت غیر معمولی محسوس ہونے لگی۔ مسافروں کے مطابق، کشتی توقعات کے برعکس زیادہ ہچکولے کھا رہی تھی۔ ایک چھوٹی ہوا بھری کشتی، جو بڑی کشتی کے پیچھے لگی تھی، اچانک نکل کر پانی میں گر گئی۔ عملے نے اسے واپس لانے کی کوشش کی، لیکن یہ کشتی کی غیر مستحکم حالت کی ایک واضح علامت تھی۔
اس رات، کشتی کے نچلے کیبنز میں موجود مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہسورا گونزالیز، جو اسپین سے تعلق رکھنے والی ایک تجربہ کار غوطہ خور ہیں، نچلی منزل پر موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’کشتی اتنی زیادہ ہل رہی تھی کہ میں رات بھر سو نہیں سکی۔‘
ڈوبنے کے لمحات
رات کے قریب تین بجے، کشتی اچانک الٹ گئی۔ اس کے ساتھ ایک زوردار آواز آئی، اور انجن بند ہونے سے ہر طرف خاموشی اور تاریکی چھا گئی۔ ہسورا گونزالیز کے مطابق، کشتی کے نچلے کیبنز میں موجود مسافروں کے لیے باہر نکلنا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ پانی تیزی سے اندر آ رہا تھا، اور ہر طرف سامان بکھرا ہوا تھا، جو راستے روک رہا تھا۔
لوسیانا بتاتی ہیں کہ ان کے کیبن کا دروازہ اب اوپر کی جانب تھا، اور وہ صرف اس وجہ سے بچ سکیں کہ ان کی دوست نے انھیں کھینچ کر باہر نکال لیا۔
کشتی کے اوپر پہنچنے کی جدوجہد
سارہ مارٹن، ایک اور زندہ بچ جانے والی، اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی کے مین ڈیک تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ انھیں تاریکی میں رینگ کر راستہ بنانا پڑا۔ راستے میں ریستوران اور کچن سے گزرنا پڑا، جہاں ہر طرف سامان بکھرا ہوا تھا۔
سارہ بتاتی ہیں کہ ’ہر طرف ٹوٹے ہوئے انڈے اور کوکنگ آئل تھا، جس کی وجہ سے پھسلن بہت زیادہ تھی۔ ہمیں دروازے کے اوپر چڑھ کر راستہ بنانا پڑا۔‘
پانی میں چھلانگ اور مزید مشکلات
جب مسافر کشتی کے اوپر پہنچے، تو انھیں سات سے 10 فٹ نیچے پانی میں چھلانگ لگانی پڑی۔ ہسورا کہتی ہیں کہ وہ خوفزدہ تھیں کیونکہ پانی تیزی سے بڑھ رہا تھا، اور ان کی دوست نے انھیں چھلانگ لگانے سے روکا۔
سارہ مارٹن بتاتی ہیں کہ کئی مسافروں نے باہر نکلنے کا راستہ روک رکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم ان پر چیخ رہے تھے کہ راستہ چھوڑیں۔‘
35 گھنٹے کا انتظار
کشتی ڈوبنے کے بعد، زندہ بچ جانے والے مسافر کھلے سمندر میں بے یار و مددگار تھے۔ انھوں نے 35 گھنٹے پانی کے اندر تیرتے ہوئے گزارے۔ اس دوران انھیں شدید سردی، بھوک، اور پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مسافروں کو لائف جیکٹس نہیں مل سکیں، اور انھیں پانی میں تیرتے ملبے کا سہارا لینا پڑا۔
لوسیانا کہتی ہیں، ’یہ وہ لمحات تھے جب میں نے سوچا کہ شاید میں زندہ نہیں بچ سکوں گی۔‘
امداد کی تاخیر
زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ امداد دیر سے پہنچی، جس کی وجہ سے کئی افراد ہلاک ہو گئے۔ ان کے مطابق، حادثے کے فوری بعد مناسب اقدامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے جانوں کا نقصان ہوا۔
حادثے کی وجوہات
اس حادثے کی ممکنہ وجہ کشتی کی خراب حالت اور عملے کی غفلت بتائی جا رہی ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کے مطابق، کشتی میں حفاظتی اقدامات ناکافی تھے، اور عملے نے مسافروں کو خطرے سے آگاہ نہیں کیا۔
آخر میں
یہ حادثہ ایک المناک یاد دہانی ہے کہ سمندری سفر میں حفاظتی اقدامات اور ذمہ داری کتنی اہم ہیں۔ زندہ بچ جانے والے مسافروں کی کہانیاں ان کی ہمت اور حوصلے کی گواہی دیتی ہیں، لیکن یہ سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ کیا اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا؟
بحیرہ احمر کے اس حادثے نے نہ صرف متاثرین بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کی کہانیاں ان کی اذیت اور جدوجہد کو دنیا کے سامنے لاتی ہیں، جو اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تحریک بن سکتی ہیں تاکہ آئندہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
Leave a Reply