Advertisement

آرمی چیف سے ملاقات کے دوران گورنر اور وزیراعلیٰ میں تلخ کلامی، معاملہ مزید کشیدہ ہوگیا

پشاور: خیبر پختونخوا میں سیاسی قیادت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان حالیہ ملاقات کے دوران گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان تلخ کلامی نے ماحول کو کشیدہ کر دیا۔ یہ ملاقات خطے کی مجموعی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی پر مشاورت کے لیے منعقد کی گئی تھی، لیکن سیاسی تنازعات نے اس موقع کو متنازع بنا دیا۔

تلخی کی ابتدا

گورنر فیصل کریم کنڈی نے اجلاس کے دوران خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ملنے والے 500 ارب روپے کا ذکر کیا، جس پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے انہیں ٹوک دیا۔ گورنر نے اصرار کیا کہ انہیں اپنی بات مکمل کرنے دی جائے، لیکن وزیراعلیٰ نے مسلسل ان کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ غلط بیانی سے کام نہ لیں۔

تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ وزیراعلیٰ گنڈاپور اجلاس چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ گورنر کی بات مکمل ہونے کے بعد وہ واپس آئے، لیکن اس وقت تک اجلاس کا ماحول پہلے ہی کشیدہ ہوچکا تھا۔

ایمل ولی خان کا بیان اور تنازعہ

اجلاس میں اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان کی جانب سے صوبائی حکومت پر شدید تنقید کی گئی، جس سے معاملہ مزید خراب ہوگیا۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ صوبائی حکومت کو دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور کہا کہ صوبائی حکومت میں طالبان بیٹھے ہیں۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ان کے اس بیان پر اعتراض کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ واضح کریں کہ صوبائی حکومت میں طالبان کون ہیں۔ پہلے تو ایمل ولی خان خاموش رہے، لیکن وزیراعلیٰ کے اصرار پر انہوں نے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا نام لیا۔

وزیراعلیٰ نے اس بیان کے جواب میں کہا کہ بیرسٹر سیف ماضی میں افغان جہاد کا حصہ رہ چکے ہیں اور اس بات کو وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں اور یہ ماضی کی بات ہے، لیکن موجودہ حکومت کو اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا ناقابل قبول ہے۔

آرمی چیف اور دیگر قائدین کا کردار

اجلاس کے دوران پیدا ہونے والی کشیدگی کو آرمی چیف اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے سنبھالنے کی کوشش کی۔ جنرل عاصم منیر نے سیاسی قیادت کو خطے کی موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور چیلنجز پر اعتماد میں لیا۔

اجلاس کے دوران بیرسٹر گوہر نے مطالبہ کیا کہ سیکیورٹی معاملات کو پارلیمان میں زیر بحث لایا جائے اور قومی سطح پر اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ آرمی چیف نے سیاسی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ قومی سلامتی کے معاملات پر متحد ہوکر آگے بڑھیں تاکہ خطے میں امن و امان کی بحالی ممکن ہو سکے۔

نتیجہ

خیبر پختونخوا میں سیاسی قیادت کے درمیان اس طرح کے تنازعات نے نہ صرف سیاسی ماحول کو کشیدہ کیا بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان تلخ کلامی اور ایمل ولی خان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے۔

یہ واقعہ اس بات کا عکاس ہے کہ سیاسی قائدین کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ایسے معاملات کو ذاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر حل کرنا ہوگا تاکہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *