ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں میں کولوریکٹل کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز عالمی سطح پر صحت عامہ کے لیے ایک سنگین تشویش بن چکے ہیں۔
سندھ میڈیکل کالج اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ماہرین نے بڑی آنت کے کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
ماہرین کے مطابق، کولوریکٹل کینسر دنیا بھر میں تیسرا سب سے عام کینسر ہے، جو کینسر کے تمام کیسز کا تقریباً 10 فیصد بنتا ہے۔ یہ بیماری عالمی سطح پر کینسر سے ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ بھی ہے۔
یہ کینسر زیادہ تر 50 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے، تاہم ماہرین نے نشاندہی کی کہ صحت مند طرز زندگی اپنانے، خطرے کے عوامل سے بچنے اور باقاعدہ اسکریننگ کے ذریعے اس بیماری کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کولوریکٹل کینسر کی ابتدائی تشخیص مریض کی زندگی بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ میڈیکل چیک اپ، اینڈوسکوپی، اور دیگر جدید تشخیصی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
کینسر کی بنیادی وجوہات اور خطرے کے عوامل
ماہرین کے مطابق، اس بیماری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں غیر صحت بخش غذا، جسمانی سرگرمی کی کمی، موٹاپا، تمباکو نوشی اور الکحل کا استعمال شامل ہیں۔
مزید برآں، پروسیس شدہ اور زیادہ چکنائی والی غذاؤں کے زیادہ استعمال، سرخ گوشت کے حد سے زیادہ استعمال اور فائبر سے بھرپور غذا کی کمی بھی بڑی آنت کے کینسر کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔
بچاؤ اور احتیاطی تدابیر
ماہرین صحت تجویز کرتے ہیں کہ صحت مند طرز زندگی اپنانے، سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کرنے، اور روزمرہ کی جسمانی سرگرمیوں کو معمول بنانے سے اس بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، 45 سال سے زائد عمر کے افراد کو سالانہ اسکریننگ کروانی چاہیے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کا بروقت پتہ لگایا جا سکے۔
علاج کے جدید طریقے
طبی ماہرین نے وضاحت کی کہ کولوریکٹل کینسر کے علاج کے لیے جدید طریقے موجود ہیں، جن میں سرجری، کیموتھراپی، اور ریڈیوتھراپی شامل ہیں۔ تاہم، جلد تشخیص اور فوری علاج سے مریض کی صحت یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
عوام میں آگاہی کی ضرورت
ماہرین نے حکومت اور طبی اداروں پر زور دیا کہ وہ کولوریکٹل کینسر کے حوالے سے آگاہی مہم چلائیں، تاکہ عوام میں اس بیماری کے خطرات، علامات اور روک تھام کے بارے میں شعور پیدا کیا جا سکے۔
یہ بیماری اگرچہ خطرناک ہے، لیکن اگر وقت پر اس کی تشخیص ہو جائے اور درست اقدامات کیے جائیں، تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
Leave a Reply